بھینس کی
قربانی کا شرعی حکم
ہر سال جیسے ہی عید
الاضحیٰ کے دن قریب آتے ہیں اور جانوروں کی خرید و فروخت شروع ہوتی ہے تو ایک
مسئلہ لوگوں کے اندر سر اٹھاتا ہوا نظر
آتا ہے کہ کیا بھینس کی قربانی جائز ہے یا ناجائز ؟ کیا کٹے کو قربانی کے
طور پر کیا جا سکتا ہےکہ نہیں؟ بعض لوگ تو اس طرح کے طنزیہ الفاظ بھی استعمال کرتے
ہیں کہ قربانی کی عید سے پہلے پہلے کٹے کی
قربانی کا کٹا کھل گیا ہے اور اس مسئلے کو حل کر دو ۔
سب سے پہلے تو ان
دلائل پر بات کرتے ہیں کہ قربانی کے جانور کے لیے کس قسم کے جانوروں کی شرائط ہیں
؟
قربانی کے جانوروں کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ ان مخصوص کردہ
جانوروں میں سے ہی ہونگے جن کا ذکر اللہ
تعالیٰ نے سور ۃ الانعام کے 143،144 میں کیا ہے۔
ثَمٰنِيَةَ اَزۡوَاجٍ ۚ مِنَ الضَّاۡنِ اثۡنَيۡنِ وَمِنَ
الۡمَعۡزِ اثۡنَيۡنِ ؕ قُلۡ ءٰٓالذَّكَرَيۡنِ حَرَّمَ اَمِ الۡاُنۡثَيَيۡنِ
اَمَّا اشۡتَمَلَتۡ عَلَيۡهِ اَرۡحَامُ الۡاُنۡثَيَيۡنِ ؕ نَـبِّـئُــوۡنِىۡ
بِعِلۡمٍ اِنۡ كُنۡتُمۡ صٰدِقِيۡنَ ۞
ترجمہ:
کل آٹھ
جوڑے (نر و مادہ) ہیں بھیڑ کے دو اور بکری کے دو ۔ آپ ان سے پوچھئے : کیا اللہ نے
دونوں نر حرام کئے ہیں یا دونوں مادائیں یا وہ بچے جو ان ماداؤں کے پیٹ میں ہوتے ہیں ؟ اگر تم سچے ہو تو مجھے علم (وحی
الٰہی) کی کوئی بات بتاؤ
وَمِنَ الۡاِبِلِ اثۡنَيۡنِ وَمِنَ الۡبَقَرِ
اثۡنَيۡنِ ؕ قُلۡ ءٰٓالذَّكَرَيۡنِ حَرَّمَ اَمِ الۡاُنۡثَيَيۡنِ اَمَّا
اشۡتَمَلَتۡ عَلَيۡهِ اَرۡحَامُ الۡاُنۡثَيَيۡنِ ؕ اَمۡ كُنۡتُمۡ شُهَدَآءَ اِذۡ
وَصّٰٮكُمُ اللّٰهُ بِهٰذَا ۚ فَمَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَـرٰى عَلَى اللّٰهِ
كَذِبًا لِّيُضِلَّ النَّاسَ بِغَيۡرِ عِلۡمٍ ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهۡدِى
الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِيۡنَ ۞
ترجمہ:
نیز اونٹ کی جنس سے دو اور گائے کے دو جوڑے ہیں۔
آپ ان سے پوچھئے : کیا اللہ نے ان دونوں نروں کو حرام کیا ہے یا دونوں ماداؤں کو یا
ان بچوں کو جو ان ماداؤں کے پیٹ میں ہوتے ہیں ؟ جب اللہ نے ایسا تاکیدی حکم دیا
تھا تو کیا تم اس وقت موجود تھے ؟ پھر اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ پر
جھوٹ باندھے تاکہ لوگوں کو علم کے بغیر گمراہ کرتا پھرے ؟ اللہ تعالیٰ یقینا ایسے
ظالموں کو سیدھی راہ نہیں دکھاتا
حافظ ابن القیم ؒ زاد المعاد میں فرماتے ہیں:
وھی مختصۃ بالازواج الثمانیۃ
المذکورۃ فی الانعام
" یہ قربانی کے صر ف آٹھ جانوروں کے
ساتھ خاص ہے جن کا ذکر قرآن مجید میں مذکور ہے ۔"
یاد رکھیے کہ قربانی
کے لیے جانور کا حلال ہونا شرط نہیں بلکہ صرف مخصوص جانور ہی کیے جاسکتے ہیں اگر صرف حلال ہونے کی شرط ہوتی
تو پرندوں اور دیگر جانوروں کی بھی قربانی کی جاسکتی تھی جن کا کھانا جائز ہے بلکہ دجاجہ ّ(مرغی) کی قربانی کا ذکر تو جمعہ کے خطبہ میں جلدی شریک ہونے والوں میں بھی
آیا ہے جیسا کہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے ۔
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ
اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
«إِذَا كَانَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ وَقَفَتِ الْمَلَائِكَةُ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ
يَكْتُبُونَ الْأَوَّلَ فَالْأَوَّلَ وَمَثَلُ الْمُهَجِّرِ كَمَثَلِ الَّذِي يُهْدِي بَدَنَةً ثُمَّ كَالَّذِي يُهْدِي
بَقَرَةً ثُمَّ كَبْشًا ثُمَّ دَجَاجَةً ثُمَّ بَيْضَةً فَإِذَا خَرَجَ الْإِمَامُ
طَوَوْا صُحُفَهُمْ ويستمعون الذّكر»
حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ
نے فرمایا :’’ جب جمعہ کا دن ہوتا ہے تو فرشتے مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو جاتے ہیں
اور آنے والوں کو ترتیب وار لکھتے جاتے ہیں ۔ اور سب سے پہلے آنے والا اس شخص کی
طرح (اجر و ثواب پاتا) ہے ۔ جو اونٹ کی قربانی کرتا ہے ۔ پھر اس کے بعد والا اس
شخص کی طرح ہے جو گائے کی قربانی کرتا ہے ۔ پھر اس کے بعد والا بھیڑ کی قربانی
کرنے والے کی طرح ۔ پھر مرغی اور پھر اس کے بعد آنے والا ایسے جیسے کوئی انڈا صدقہ
کرے ۔ جب امام منبر پر آ جاتا ہے تو وہ اپنے رجسٹر بند کر دیتے ہیں اور غور سے خطبہ
سنتے ہیں ۔‘‘ متفق علیہ ۔
بھینس کی قربانی ان مخصوص جانوروں میں سے نہیں ہیں جن کو
بھیمۃ الانعام کہا جا سکے جو کہ آٹھ جوڑے
ہیں۔ اب جو لوگ بھینس کی قربانی کا جواز پیش کرتےہیں وہ بھینس کو گائے کی قسم بتا کر کرتے ہیں اور لغوی دلیل
پیش کرتےہیں کہ الجاموس نوع من البقر
اگر ہم بھینس اور گائے کا موازنہ کرتے ہیں تو ہمیں ان دونوں
جانوروں میں چند ایک اختلافات اور فرق نظر آتے ہیں۔
1۔ لغوی اختلاف
گائے
کے لیے لفظ"
بقر"
استعمال ہوتا ہے جبکہ بھینس کے لیے ایک مخصوص اور علیحدہ لفظ "جاموس "استعمال ہوتا ہے۔
2۔ ہیئت و شباہت
گائے
مختلف رنگوں کی ہوتی ہے ۔ کالی، زرد،براؤن وغیرہ جبکہ بھینس صرف عموما ً سیاہ جبکہ
کبھی کبھار سرمئی رنگ کی ہوتی ہے ۔دونوں کے چہرے
اور جسم میں بہت واضح اختلاف نظر آتا ہے ۔
3۔ دودھ
گائے
کا دودھ پتلا اور ہلکا زردی مائل ہوتا ہے جبکہ بھینس کا دودھ گاڑھا اور سفید ی
مائل ہوتا ہے ۔
4۔ طبعی
گائے
پانی میں جانا اور رہنا بالکل ناپسند کرتی ہے جبکہ بھینس پانی کو دیکھ کر خوش
ہوجاتی ہے اور کافی وقت پانی میں گزارنا پسند کرتی ہے۔
ماحاصل
قربانی
کا مقصد رضائے الہٰی کا مقصود ہے گو شت
کھانا مقصود حقیقی نہیں ہے ۔ بعض لوگ صرف اس وجہ سے بھینس اور کٹے کی قربانی پر
زور دیتے ہیں کہ اس کا گوشت مزے دار ہوتا ہے ۔ قربانی کا مقصد مزا لینا نہیں اللہ
تعالیٰ کو راضی کرنا ہے ۔بہتر بات یہی ہے کہ شریعت کے احکام پر عمل کرتے ہوئے نص
قطعی کو مانے جائے تاویلات اور شکوک و شبہات سے گریز کیا جائے کیونکہ رسول انور ﷺ
کا فرمان ہے :
وَعَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ رَضِيَ
اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: حَفِظْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ: «دَعْ مَا يَرِيبُكَ إِلَى مَا لَا يَرِيبُكَ فَإِنَّ الصِّدْقَ
طُمَأْنِينَةٌ وَإِنَّ الْكَذِبَ رِيبَةٌ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ
وَالنَّسَائِيُّ وَرَوَى الدَّارِمِيُّ الْفَصْل الأول
حضرت حسن بن علی ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے
رسول اللہ ﷺ سے یاد کیا :’’ جو چیز تجھے شک میں ڈال دے اسے چھوڑ دے اور شک سے پاک
چیز اختیار کر ، کیونکہ سچائی میں اطمینان ہے اور جھوٹ میں شک ہے ۔‘‘ احمد ، ترمذی
، نسائی ۔ اور امام دارمی نے اس حدیث کا پہلا حصہ روایت کیا ہے ۔ ، رواہ احمد و
الترمذی و النسائی و الدارمی ۔